زمیں کے تارے
شاعر مشرق نے خوشحال خان خٹک کی وصیت کا ذکر کرتے ہوئے ان نوجوانوں سے خصوصی محبت اور الفت کا اظہار کیا ہے جو ستاروں پر کمندیں ڈالتے ہیں، برادرم عبد الخالق نے بجائے آسمان کے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے زمین پر ہی نہ صرف ستارے دریافت کرلئے ہیں، بلکہ ان کو اپنی سحر انگیز تحریر کی لڑی مین پروکر ہماری بینائیوں کی نذر بھی کردیا ہے، اور میرے خیال میں شاعر مشرق نے جوانوں کو جو خودی اور خود شناسی کا سنہرا پیغام دیا تھا اس کی ایک تشریح یہ بھی ہے، کیونکہ انہوں نے ہی تو کہا تھا کہ ''طاقت ہے تو کر پیدا فردوس بریں اپنا!
وہ ایک الگ بات ہے کہ وطن عزیز بلکہ امت مسلمہ کے بہت سے جوان، شاعر مشرق کے اس شعر کو تعبیر بخشتے ہوئے '' فلمی ستاروں '' پر کمندیں ڈال بیٹھے! کیونکہ ان کے نزدیک ستارہ ستارہ ہی ہوتا ہے، '' ادھر '' کا ہو یا '' ادھر'' کا!
گوکہ میری بھی ان '' زمیں کے تاروں '' سے ملاقات مکمل ہوگئی، الوداعی کلمات کہتے ہوئے نکل آبھی آیا، لیکن ابھی تک اس کے سحر سے باہر نہیں نکل سکا، '' اپنا بناکر جب چھوڑدیا جائے ، تو پھر اسیری ہو یا رہائی '' کیا فرق پڑتا ہے! اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ایک تو ستارے، وہ بھی اتنی ارزانی سے دستیاب کہ ان کے روبرو ہونے کیلئے افلاک کی دوریوں اور بلندیوں کا رخت باندھنے کی ضرورت ہی نہ پڑھے، بلکہ خود ہی دمکتے چمکتے دھرتی پہ آجا ئیں! اوپر سے ہمدرد کی جادو اثر انگلیاں ان کو ایک ہی لڑی میں پرو نے لگ جائیں- پری وش کا ذکر اور پھر ہمدرد کا بیان- آنکھیں، دل، لب اور دماغ کب کسی کے قبضہ میں رہتا ہے؟!
عبدالخالق ہمدرد نے اپنے بچپن سے لیکر حال تک کے سفر زیست کی ایسا دلچسپ اور خوبصورت منظر کھینچا ہے کہ شروع کرنے والا جب تک آخر تک نہ پہنچ جائے، چین نہیں آتا، بلکہ بعض جگہ توباقاعدہ تمنا دعا بن کر لبوں سے ٹکراجاتی ہے کہ
۔۔ کہیں مختصر نہ ہو
طالب علمی کا سفر مجھے اپنے جیسا لگا، البتہ لگا کہ باوجود میرےاور ہمدرد صاحب کا مشترکہ درد ہونے کے غربت کی میرے پاس فراوانی تھی !
کتاب پڑھتے ہوئے قاری کو مختلف نشیب وفراز سے گذرنا پڑتا ہے، ایک لمحہ میں ہونٹوں پر بے اختیار تبسم کھیلنا شروع کردیتا ہے، قہقہے بھی بلند ہوتے ہیں، تو دوسرے لمحہ ہی رنجیدگی مسکراہٹوں کو شکست دے دیتی ہے، پھر بے ساختہ آنکھیں سخاوت کرنے لگ جاتی ہیں۔ مسکراہٹوں، اشکوں اور سنجیدگیوں کے اس کمبینیشن پر بسااوقات قرب و جوار میں بیٹھے افراد بے اختیار چونک جاتے ہیں، بلکہ کسی کسی کے دل مین تو آپ کے دماغی توازن کے بارے شکوک وشبہات بھی جنم لینے لگتے ہیں،اور وہ ہمدردی جتلاتے ہوئے پوچھنے بھی لگ جاتے ہیں :Are you okay? O my God! You were laughing but now you start to cry? Why? is everything okay?
یاد رہے کہ '' زمین کے تارے'' ہمدرد کی پہلی قلمی واردات نہیں، بلکہ اس سے قبل ان کے سدا بہار اور رواں قلم سے نکلنے والی متعدد علمی اور فقہی تالیفات اہل علم سے داد وتحسین وصول کرچکی ہیں، مختلف علاقوں کا سفر کرتے ہیں اور پھر اتنے دلکش انداز میں اس کی روئیداد لکھتے ہیں کہ بندہ یوں محسوس کر رہاہوتا ہے وہ بنفس نفیس ان علاقوں میں گھوم رہاہے، نثر نگاری کے علاوہ شعر ونظم میں بھی وہ اپنا ایک سلوب اور طرز رکھتے ہیں ، علم عمل اور عمر میں بھی مجھ سے بہت سینئر بلکہ اساتذہ کی جگہ ہونے کے باوجود بھی مجھے سے تعلق دوستانہ ہے، اور ان کی شفقتوں اور محبتوں نے اتنی گستاخی کی اجازت دے رکھی ہے کہ بے تکلف ہر بات کہ سکتا ہوں ! مختلف بین الاقوامی زبانوں مثلا عربی، انگریزی، فارسی تو گویا ان کی جیب کی گھڑی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف عربی سفارت خانوں میں انگریزی اخبارات کا عربی اور عربی کا انگریزی میں ترجمہ کرتے ہیں، بلکہ بعض شرارتی دوستوں کا دعوی ہے کہ - اللہ معاف کرے- ہمدرد کو '' بعض ایسی زبانیں بھی آتی ہیں کہ جن کے بارے سوچنا پڑھتا ہے کہ ان زبانوں پر عبور کی وجہ سے ہمدرد بھائی کی تعریف کی جائے یا ان کو طعنہ دیا جائے!
شاید مختلف زبانوں پر اس درجہ عبور ہی یہی وجہ ہے گلگت بلتستان کے معروف ادیب اور ہمدرد بھائی کے ہم نام جناب عبد الخالق تاج نے بطور مزاح (نہ کہ اپنی حسرت کا اظہار کرتے ہوئے) لکھاہے کہ '':
'' کئی زبانوں میں ہمدرد بھائی کو برا بھلا نہیں کہا جاسکتا!
حالانکہ عبد الخالق تاج وہ آدمی ہیں کہ گلگت بلتستان کے حلقہ ادب میں ان کا طوطی بولتا ہے، بلکہ بغیر کسی چون وچرا یہ کہاجاسکتا ہے تاج صاحب تو شنا اور اردو شعرو ادب کے میدان نامور شہسوار جناب ظفر وقار تاج صاحب کے بھی باپ ہیں!
تاج صاحب نے اپنی تحریر میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کے ہم نام عبد الخالق ہمدرد نے ملنے کیلئے اسلام آباد میں کسی مشہور خانہ خدا کے پاس بلایا تھا، لیکن وہ اپنی کرامت سے ہمدرد کو پہلی ملاقات میں ہی چائے خانہ تک کھینچ لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں! اب آگے ہم تو کچھ کہنے سے رہے، بس
' جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا!
بلاشبہ تاج صاحب کی اس گدگداتی تحریرنے ہمدرد کی کتاب کو چار چاند لگادیے ہیں۔
عبد الخالق ہمدرد جب یادوں کا ساز چھیڑتے ہیں تو قلب وجگر میں کئی نغمے انگڑائیاں لینے لگ جاتے ہیں، اور تقریبا ہر تیسرا جملہ یوں لگتا ہے کہ '' میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل تھا!
مثلا اپنے گاؤں کی پسماندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہی:
ہمارا یہ علاقہ '' دیہات سے سے بھی کچھ زیادہ دیہات ہے، کیونکہ یہاں شہروں کی عام ضروریات اور سہولتوں سے کچھ بھی میسر نہیں۔۔۔ ص ٤٧
اس لحاظ سے ہمدرد کا گاؤں ہمارے گاؤں سے بھی زیادہ '' دیہات'' ہے، کہ یہاں تک موبائل کے سگنلز نے پہنچتے پہچتے ١٤ لگادیئے، ورنہ ہمارے ہاں تو ٢٠٠٨ تک شاید پہنچ گئے تھے!
ص نمبرپر والدہ کی تعلیم کا ذکر چھیڑا تو ماضی کی یادوں نے میرے الفاظ اور قلم دونوں کو روک دیا، آنکھوں میں پھر ساون امڈ آیا، مجھے بھی یاد آیا کہ پہلی بار جب والدہ مجھے سورہ اخلاص پڑھا رہی تھیں تو مجھے یاد نہ ہوئی اور شاید یاد کرنے کی نیت بھی نہیں تھی، جب سنانے کا موقع آیا تو اللہ الصمد کے بعد میں نے '' خود کفیل'' بن کر'' لِد لِد لولد '' الرحیم '' کا اضافہ کیا، اس سے پہلے تو ہمارے جھونپڑی نما گھر میں ایک قہقہہ بلند ہوا پھر امی جان کے ہاتھ اور پھر جوتا، ظاہر ہے کہ ان کا اگلا '' سٹیشن'' میری کمر ہی تھی!
شیخ البانڈی!
ہمدرد بھائی کی کتاب میں ایک لفظ جو مجھےکافی دلچسپ لگا وہ '' شیخ البانڈی'' کا ہے، کیونکہ ابھی تک شیخ المنطق، شیخ الجامعہ، شیخ الحدیث، شیخ العرب، شیخ العجم جیسے نام والقاب تو سنے تھے، بلکہ بعض دوست تو بنات کے مدارس میں پڑھانے والے مدرسین کو چھیڑتے ہوئے شیخ البنات کا لقب بھی دیا کرتے ہیں، لیکن '' شیخ البانڈی '' پلی بار سنا، اگرچہ یہاں یہ بطور نام استعمال ہوا ہے!
الفاظ کے ساتھ کھیلنا یا صنعت تجنیس
الفاظ کے ساتھ کھلینا یا قاری کی سماعتوں کو تیکھے الفاظ کے ساتھ گداگدانا ایک خاص فن ہے، جس طرح اسے جملے '' کارے دارد'' اسی طرح اس سے حظ اٹھانے کیلئے بھی سلامت ذوق اور زبان کی باریکیوں سے واقفیت درکار ہے۔ اس یا اس جیسے عمل کو ادب کی اصطلاح مین جناس یا تجنیس کہا جاتا ہے، یعنی ایک ہی لفظ کو دومختلف معنوں میں استعمال کرنا، کبھی یہ صرف الفاظ کی باہم ملتی جلتی شکلوں سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی مشترک معانی کی وجہ سے عربی، فارسی اور اردو زبان کے نظم ونثر میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، عربی زبان میں کتنے غضب کا شعر ہے:
لَيْلِى وليْلَى نَفى نوْمى اختلافُهُما ... حَتَّى لقَدْ تركانِى فى الهَوَى مَثَلاً
يَجُودُ بالطُّولِ ليْلِى كلما بَخِلَتْ ... بالطوْل ليْلَى وَإِن جَادَتْ بِهِ بِخلاَ
نيز
فدارهم ما دمت في دارهم وأَرْضِهم ما دمت في أرضهم
اور
وإذَا البَلابِلُ أفْصَحَتْ بلْغاتهَا ... فانْفِ الَبَلابِلَ باحتِساءِ بَلابلِ!
يا
دققت الباب حتّى كلّ متني فلما كلّ متني، كلّمتني
فقالت: أبا إسماعيل صبرا فقلت أسمى عيل صبري!
اور اگر فارسی جیسی شیریں زبان کی بات کی جائے تو حاٖفظ اور سعدی کے علاوہ کون یاد آسکتا ہے؟ کہتے ہیں
گرآمدم به کــــوی تو چندان غریب نیست!
چون من در آن دیارهزاران غریب هست!
اور سعدی کہتے ہیں:
نه عجب که قلب دشمن شکني به روز هيجا تو که قلب دوستان را به مفارقت شکستي!
اور اردو زبان میں استاد غالب کا مشہور شعر ہے :
میں بُلاتا تو ہوں ان کو مگر اے جذبۂ دل
ان پہ بَنْ جائے کچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے (غالب)ؔ
اسی طرح کے دو اور شعر ملاحظہ کیجئے، اگرچہ ان کا قائل فی الحال ذھن مین نہین آرہا، اور ویسے بھی رات کے اس پہر، دوران سفر، بالخصوص جس شخص کو ہوائی سفر میں ڈر بھی بہت لگتا ہو، بس نام ہی خدا ہی یاد رہے تو بڑی بات ہے!
شانے سے بل نکال دئیے زلف یار کے
اک مار ہم نے زیر کیا، مار مار کے!
اور
لام نستعلیق کا ہے اس بت خوشخط کی زلف
ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اس لام کے!
جناب ہمدرد نے بھی اپنی تحریر میں کئی مقامات پر اسی صنعت کو استعمال کرتے ہوئے سامعین کی سماعتوں کو گدگدایا ہے اور خوب گد گدایا ہے مثلا :
سکول میں پہاڑے کے پہاڑ سر نہ کر سکنے کا نوحہ لکھتے ہوئے گویا ہیں:
'' پہاڑے بھی پہاڑ '' کی طرح ہوتے ہیں، اور میرے حصہ میں تیرہ کا پہاڑہ آیا!
ص ١٨٤ پر اپنے استاد تاج محمد کی پریکٹکل کی کلاس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
'' ادھر تجربہ ہورہاہے اور ادھر تجربے ہورہے ہیں!
ایک اور استاد کی ناراضگی کا ذکرتے ہیں کہ :
'' جو اس وقت بولتے ہوئے شرمائے، وہ شرمارہے ہیں!
اس طرح کی کئی مثالیں ہیں۔
دارالعلوم کراچی سے وابستہ سنہری یادوں کا ذکر کرتے ہوئے سماں باندھیتے ہیں، لیکن اسی سنجیدگی کے بیچوں بیچ کہیں کہیں مزاح کا رنگ بھی نظر آتا ہے، مثلا '' اولی کے سال ایک بار درسگاہ خالی تھی، باہر مرغوں کی آواز آئی ، ایک ساتھی نے بانگ دی تو مجھے بھی شوق ہوااور میں نے بھی ہمنوائی کی ، چنانچہ قریبی درسگاہ سے بلاوا آیا''!
اسے حضرت مولنایونس صاحب کی رحمدلی کہیئے یا ہمدرد بھائی کی خوش نصیبی کہ بچ گئے، ورنہ تو '' بے وقت ''بانگ دینے'' والوں کے ساتھ عموما ''اچھا'' نہین ہوتا!
ص ٣١٢ پر کراچی میں مقیم اپنے ایک دوست کی عجیب خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
'' جب پیسے کمرے کے اندر گم ہوئے ہیں تو اعلان باہر کس طرح لگاؤں''
کتاب میں مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ سمیت بعض اکابر کا تذکرہ جس والہانہ انداز سے کیا ہے اس کا جواب نہیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب سمیت چند دیگر اہل علم کا تذکرہ گم ہونے پر ہمدرد صاحب کا دکھ مجھے بھی شدت سے محسوس ہوا۔ نیز مدارس میں تدریس ، علمی انحطاط سمیت کئی چیزوں پر مفصل انداز میں قلم اٹھایا ہے۔
ص ٢٦٧ پر شیخ الحدیث مولنا فضل محمد کا تذکرہ چھیڑا ہے، مجھے اگرچہ حضرت سے باقاعدہ تلمذ کا شرف تو حاصل نہ ہوسکا، لیکن گذشتہ سال حضرت یہاں میرے پاس ترکی تشریف لائے تھے، میزبانی، خدمت کے علاوہ حضرت کے ساتھ دیاربکر کے قلعہ میں مدفون ٢٧ صحابہ کرام و تابعین کی خوابگاہ کی زیارت کیلئے بھی ساتھ جانا ہوا، دیار بکر کے قلعہ میں محو استراحت وفا اور جانثاری کے ان 27 پیکروں میں سے ایک نام سیدنا خالد بن ولید کے چہیتے صاحبزادے سلیمان بن خالد بھی تھے، امام واقدی کے بقول جب دین اسلام کے اس شاہین نے جب تیس سے زائد رومی شہسواروں کو پیوند خاک کیا تو 2 ہزار کے قریب رومیوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا اور گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں، پہلے ایک پھر دوسرا ہاتھ راہ خدا میں قربان ہوا، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے گرنے لگے تو کہا:
يعز عليك يا خالد بن الوليد ما حل بولدك هذا في رضا الله عز وجل وكان قد طعن في صدره نحو عشرين طعنة حتى قل حيله وسقط إلى الأرض ثم تنفس وقال الساعة نلقي الأحبة!
(مفہوم یہ ہے کہ والد گرامی قدر) خالد بن ولید، جو کچھ آپ کے لخت جگر پہ بیتی ہے، اس کی خبر آپ پر بجلی بن کر گرے گی، لیکن جان جس کی دی ہوئی ہے، اس کی رضا اسی میں ہے، یہ کہتے ہوئے آخری سانسیں بھی لی اور کہنے لگے: دوستوں سے ملاقات کی گھڑی آگئی! پھر آنکھیں بند کیں تو کھولنے کی نوبت نہ آئی۔ ( مزید تفصیل اللہ نے چاہا تو ہمارے حضرت مفتی سعید الحسن دہلوی کے سفرنامے مین پڑھ لیجئے گا)
عجیب بات یہ ہے کہ مولنا فضل محمد صاحب بڑھاپے اور گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے تیز نہیں چل سکتے، اس لئے دیار بکر کی تاریخی مسجد - جو شاید سیدنا عمر کے دور سے پہلے چرچ تھی اورجسے اناضول کی سب سے پہلی مسجد ہونے کا شرف حاصل سے میں حضرت کا ہاتھ پکڑ کر لایا، لیکن جب حضرات صحابہ کرام وتابعین کے مزارات کے قریب اترائی کے پاس پہنچیں تو استاذ جی نے ایسی دوڑ لگائی گویاکہ ان کی رگوں میں بجلی کوند گئی ہو، حتی شریک سفر مولنا سعید الرحمن صاحب مردان والے نے جاکر پکڑ لیا!
حضرت نے چائے کی مذمت میں ایک فارسی شعر سنایا تو میں نے چائے کی مدح میں عربی اور فارسی میں پوری رباعی، اساتذپ اور طلبہ کے سامنے بیان کرتے ہوئے جب حضرت بنوری کا تذکرہ کرنے لگے تو سب اشکبار تھے، بہت سادھی اور ٹوٹی پھوٹی عربی میں گفتگوکی، لیکن سامعین پر مسلسل گریہ طاری رہا۔
اس کے علاوہ ہمدرد کی تحریر نے دل ناپائیدار میں پھولوائی اور نیلم کی حسین وادیوں مین کھوجانے اور دیوسائی کی بلندیوں سے ہم آغوش ہونے تمنا کی دبی چنگاریوں کو پھر سے ہوا دی ہے!
یہاں پر خوگر حمد تھوڑا سا گلہ یہ بھی کرنا چاہتا ہے کہ الفاظ کی تجوریاں اور تعبیرات کے خزانے ساتھ لئے پھرنے والے ہمدرد کا قلم اپنے فکر و عقیدہ کے مخالفین کے تذکرہ کے وقت اپنی پرواز برقرار نہیں رکھ پایا ہے۔ مثلا اسلام یا اہل سنت سے منسوب مختلف فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے'' بریلویوں'' شیعوں'' اور آغاخآنیوں '' جیسی تعبیرات اختیار کی ہیں۔ اس طرح کے الفاظ کسی درسگاہ یا نجی محفل میں تو قابل درگذر ہوتی ہیں لیکن بین الاقوامی فورم پر وہ بھی ہمدرد جیسے مختلف زبانوں کے ماہر کے قلم سے بہت ہی عجیب لگتی ہیں، امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں اس کی اصلاح کی جائے گی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ تو اپنے کٹر مخالف اور عیسائی کو بھی عظیم بصری- بصری کے سردار، یا
King OF Busra
جیسے احترام سے پکارا ہے۔ اور قرآن کریم فرعون جیسے ظالم کے سامنے بھی موسی جیسے کلیم کو بھی قولا لینا۔ نرم دم گفتگو- کا حکم دیتا ہے!
شاید میں بہت دور نکل گیا، خلاصہ یہ ہے کہ '' زمین کے تاروں ''میں کیا ہے اور کیوں ہے؟
اس کا جواب '' زمین کے تاروں کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ جہاں تک علم و عمل سے بہرہ، اسلوب نگارش سے تہی دامن اور ادب، تخیل اور شاعری جیسے نازک خیالات سے ناآشنا اس دیہاتی کے چند بے ربط جملوں کا تعلق ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ ہمدرد بھائی یا ان کی کتاب کا کیا تعارف ہوسکے گا، البتہ اپنی درازی قد کا سامان ہوسکے گا،
حکایت قدِ آں یار دلنواز کنم ... بایں بہانہ مگر عمرِ خود دراز کنم
رمضان المبارک میں جب ہمیں ظاہری طور پر کرونا اور باطنی طور پر پی ایچ ڈی دوسرے سمسٹر کے فائنل امتحانات نے مل کر گھیرا ہوا تھا، ہمدرد بھائی نے زمین کے تارے اٹھاکر ہماری جھولی میں ڈال دیئے تھے، لیکن طالب علمانہ مصروفیات ، کرونا کا خوف ، فکر معاش اور امتحان کے نرغے میں تھا، اس لئے ستاروں سے ہمکلامی کا شرف حاصل نہ کرسکا، شاید ہمدرد بھائی نے کتاب کے مقدمہ میں جو بعض نامعلوم دوستوں کی طرف سے رسید نہ ملنے کا شکوہ کیا تھا، اس میں میرا بھی شمار تھا۔ اس لئے اب رسید پیش کرتے ہوئے زکی کیفی رح کے لہجہ میں یہی عرض ہے کہ
کتنے نغمے ہیں جو پردون میں چھپا رکھے ہیں
آپ چھیڑیں تو یہ ساز ِ دل ِ ناساز کبھی!
Comments
Post a Comment