مرشد رومی نے کہاتھا

انسانم آرزو است! 
مرشد رومی نے کہاتھا :   
دی شیخ با چراغ همی‌گشت گرد شهر. 
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست!
( مفہوم کل ایک شخص کو ہاتھ میں چراغ لئے کچھ تلاش کرتے دیکھا، ہوچھا تو جواب ملا کہ  دیو اور درندوں کے معاشرہ سے اکتا گیا ہوں اور کسی انسان کی تلاش میں ہوں)
جس وقت مرشد رومی نے یہ کہاتھا ، اس وقت یقینا جنس انسانی اتنی نایاب نہیں ہوگی، جتنی آج ہے، نلتر کے شہدا بالخصوص معصوم بچے کی تصویر قلب وجگر میں آگ لگارہی ہیں۔ لیکن ہم درندوں کے معاشروں میں پلے بڑھے لوگ ہیں، ہمیں کسی بھی ماں کے آنسوؤں، بھائیوں کا دکھ اور بوڑھے باپ کی آہیں اس وقت تکلیف دہ لگتی ہیں جب مقتول کا تعلق ہمارے مسلک سے ہو۔ جب تک ہم مجرم کو مجرم ، قاتل کو قاتل کی بجائے علاقہ اور مذھب کے تناظر میں دیکھتے رہیں گے، روز ہمارا یہ حال ہوتا رہے گا۔ 
رسول اللہ ﷺ نے تو راستہ تنگ یا بند کرنے پر جہاد جیسی عبادت کو بھی نامنظور کہاتھا، لیکن ہم رحمت دوعالم ﷺ کی ولادت، ان کے نواسوں کی شہادت سمیت کتنے ہی مقدس ہستیوں سے منسوب تہوار ہیں جن کی ابتداء ہی راستوں کی بندش، مارکیٹوں اور ہسپتالوں کو تالے لگاکر کرتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ عام حالات میں کچھ معقول اور تعلیم یافتہ نظر آتے ہیں اور مذھب اور اہل مذھب کو کوتے رہتے ہیں،  موقع ملتے ہی ان کا میک اپ بھی دھل جاتا ہے، کچھ دن قبل مشہور کرکٹر سعید انور کے دورہ ہنزہ کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر بعض دانشوروں کی خامہ فرسائی اسی کی آئینہ دار ہے۔ 
اس لئے آئیے ایک انسانی معاشرہ کی تشکیل شروع کرتے ہیں، ابتداء اپنے گھر سے کرتے ہیں، قاتل کو قاتل اور جرم کو جرم ہی کہتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

تاریخ کا ان پڑھ جج جسٹس بابا کھڑک سنگھ

SnackVideo application and Rules("SnackVideo"),

وقت چلا ، لیکن کیسے چلا پتہ ہی نہیں چلا