Posts

مشہور فیشن ڈیزائنر اور مصنف "کرسڈا روڈریگز" نے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے انتقال سے پہلے یہ تحریر لکھی ن

Image
1۔ میرے پاس اپنے گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگی برانڈ کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔ 2. میرا گھر ہر طرح کے ڈیزائنر کپڑے ، جوتے اور قیمتی سامان سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی چادر میں لپیٹا ہوا ہے۔ 3. بینک میں کافی رقم ہے۔ لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ 4. میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر میں پڑی ہوں۔ 5. میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جاسکتی ہوں ۔ لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔ 6. میں نے سینکڑوں لوگوں کو آٹوگراف دیے۔ آج ڈاکٹر کا نوٹ میرا آٹوگراف ہے۔ 7. میرے بالوں کو سجانے کے لئے میرے پاس سات بیوٹیشنز تھیں - آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے۔ 8. نجی جیٹ پر ، میں جہاں چاہتی ہوں اڑ سکتی ہوں۔ لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لئے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ 9.اگرچہ بہت ساری کھانوں کی مقدار موجود ہے ، لیکن میری خوراک دن میں دو گولیوں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہے۔ یہ گھر ، یہ کار ، یہ جیٹ ، یہ فرنیچر ، بہت سار...

زمیں کے تارے

شاعر مشرق نے خوشحال خان خٹک کی وصیت کا ذکر کرتے ہوئے ان نوجوانوں سے خصوصی محبت اور الفت کا اظہار کیا ہے جو ستاروں پر کمندیں ڈالتے ہیں، برادرم عبد الخالق نے بجائے آسمان کے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے زمین پر ہی نہ صرف ستارے دریافت کرلئے ہیں، بلکہ ان کو اپنی سحر انگیز تحریر کی لڑی مین پروکر ہماری بینائیوں کی نذر بھی کردیا ہے، اور میرے خیال میں شاعر مشرق نے جوانوں کو جو خودی اور خود شناسی کا سنہرا پیغام دیا تھا اس کی ایک تشریح یہ بھی ہے، کیونکہ انہوں نے ہی تو کہا تھا کہ  ''طاقت ہے تو کر پیدا فردوس بریں اپنا! وہ ایک الگ بات ہے کہ وطن عزیز بلکہ امت مسلمہ کے بہت سے جوان، شاعر مشرق کے اس شعر کو تعبیر بخشتے ہوئے '' فلمی ستاروں '' پر کمندیں ڈال بیٹھے! کیونکہ ان کے نزدیک ستارہ ستارہ ہی ہوتا ہے، '' ادھر '' کا ہو یا '' ادھر'' کا! گوکہ میری بھی ان '' زمیں کے تاروں '' سے ملاقات مکمل ہوگئی، الوداعی کلمات کہتے ہوئے نکل آبھی آیا، لیکن ابھی تک اس کے سحر سے باہر نہیں نکل سکا،  '' اپنا بناکر جب چھوڑدیا جائے ، تو پھر  اسیری ہو ...

Karakaram Highway shortly introduction

شاہراہ ریشم اس شاہراہ کو قراقرم ہائی وے(قراقرم ترکی زبان کا لفظ ہے قرا کا مطلب سیاہ اور قرم کا مطلب بھربھری چٹانیں) یا KKH کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہےاس شاہراہ کی کل لمبائی 1300کلومیٹر ہے۔ تقریبا 850کلومیٹر پاکستان اور 450 کلومیٹر کا حصہ چین میں ہے- اسکا سب سے بلند راستہ خنجراب پاس ہے جسکی بلندی 4650میٹر ہے۔ اسکی تعمیر میں تقریبا 900 لوگوں کو جان کی بازی لگانی پڑی۔ جن میں 810 پاکستانی اور 85 کے قریب چینی شہری تھے۔ اس شاہراہ پر 99 بڑے پل اور تقریبا 1708 چھوٹے پل ہیں۔ اس سڑک کی تعمیر میں8 ہزار ٹن ڈائنا مائیٹ اور تقریبا 80 ملین کلوگرام سیمنٹ استعمال ہوئی۔ حسن ابدال سے مانسہرہ (105کلومیٹر) ایبٹ آباد: یہ شہر تفریحی مقامات اور پکنک پوائنٹ کے لحاظ سے مالامال ہے۔ یہاں کی مشہور جگہوں میں واٹر فال ۔ شملہ ہل، شوڑا ویلی، دھمتوڑ ، ٹھنڈیانی، میرا جانی ۔ ہرنو ، سمندر کھٹہ جھیل، چئر لفٹ(نواں شہر) ، ہر نوئی جھیل اور سجی کوٹ صحت افزا اور قابل دید مقامات ہیں۔ اور الیاسی مسجد کے پکوڑے بھی بہت مشہور ہیں۔ مانسہرہ: مانسہرہ سے دو راستے الگ ہوتے ہیں ایک وادی کاغان کی طرف چلا جاتا ہے جبکہ دوسرا بشام کی طرف مڑ ...

کیا بین الاقوامی قانون کے تحت گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی صوبہ بن سکتا ہے؟

تحریر. اشفاق احمد ایڈوکیٹ گذشتہ ہفتے عمران خان کی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی بابت میڈیا رپورٹس سامنے آنے کے بعد گلگت بلتستان میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے بہت سارے سیاسی اور غیر سیاسی لوگ اپنی اپنی من پسند تشریحات کررہے ہیں. سیاسی بحث میں الجھے ہوۓ بہت سارے لوگ اس اہم مسلے کے ساتھ جڑے ہوۓ بین اقوامی قانونی مشکلات سے نابلد ہونے کی وجہ سے نہ صرف خوشی سے ناچ رہے ہیں بلکہ ایک مکتبہ فکر کا دعوی ہے کہ اب گلگت بلتستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بن کے رہے گا اور پھر اس خطے میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی جبکہ دوسرے مکتبہ فکر خصوصا ریاست جموں اینڈ کشمیر کی آزادی کے حامی لوگوں کا ماننا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے نہ صرف کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا بلکہ ریاست کے مفادات کو بھی نقصان ہوگا اور ساتھ میں پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے زیر کنٹرول کشمیر میں کیا گیا مودی سرکار کے غیر قانونی اقدام کو ایک طرح سے بین الاقوامی برادری میں قبولیت بھی ملی گی. برحال اس تمام بحث میں حقیقت پسندی سے زیادہ زاتی پسند و ناپسند اور خواہشات کا اثر غالب ہے جس کی وجہ سے گ...

Hunza seems to be gaining popularity

With great politeness Like #Hunza on Facebook for two or three days Hunza seems to be gaining popularity and there is no doubt that Hunza is one of the valleys of Gilgit-Baltistan for its beauty, tourist and historical places, peace loving, love sharing, most of all that 99.9% people are educated, crime free It is a pure, famous and popular valley and it is the only region where both men and women are getting equal rights, men and women are working side by side in all aspects of life. Hunza is a developed region in every respect, be it in terms of education, economic, social or health centers. History has shown that a nation can never develop where there is no such thing as great education. Hunza is a living proof. We all need to visit Hunza once.  Now we come to the part where we talk about the middle ground, why #Hunza is so popular on social media. The special and important reason for this is that in order to promote tourism, a Facebook page of Hunza had written "Hunza Valley...

وقت چلا ، لیکن کیسے چلا پتہ ہی نہیں چلا

*وقت چلا ، لیکن کیسے چلا پتہ ہی نہیں چلا *زندگی کی ، آپا دھاپی میں ، کب نکلی عمر ہماری ، یارو* *پتہ ہی نہیں چلا* *کندھے پر چڑھنے والے بچے ، کب کندھے تک آ گۓ* *پتہ ہی نہیں چلا* *کراۓ کے گھر سے ، شروع ہوا تھا ، سفر اپنا* *کب اپنے گھر تک آ گئے* *پتہ ہی نہیں چلا* *ساٸیکل کے پیڈل مارتے ، ھانپتے تھے ہم ، اس وقت* *کب سے ہم ، کاروں میں آ گئے* *پتہ ہی نہیں چلا* *کبھی تھے ہم ، ذمہ دار ، ماں باپ کے* *کب بچوں کے لیے ہوئے ذمہ دار* *پتہ ہی نہیں چلا* *اک دور تھا ، جب دن میں ، بیخبر سو جاتے تھے* *کب راتوں کی ، اڑ گٸ نیند* *پتہ ہی نہیں چلا* *جن کالے گھنے بالوں پر ، اتراتے تھے کبھی ہم* *کب سفید ہونا شروع ہو گۓ* *پتہ ہی نہیں چلا* *در در بھٹکتے تھے ، نوکری کی خاطر* *کب ریٹاٸر ہو گئے* *پتہ ہی نہیں چلا* *بچوں کیلیے ،کمانے بچانے میں ، اتنے مشغول ہوے ہم*     *کب بچے ہوئے ہم سے دور*     *پتہ ہی نہیں چلا*      *بھرے پرے خاندان سے ، سینہ چوڑا رکھتے تھے ہم*     *اپنے بھائی بہنوں پر ، گمان تھا*     *ساتھ چھوڑ گئے کب*     *پت...

Five safe countries for women 2020

"خواتین کے لئے پہلے پانچ بہترین ممالک میں ناروے، سوئٹزر لینڈ، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ شامل ہیں اور اِن میں سے کسی ملک میں سر عام پھانسی کا رواج نہیں ہے اور نہ ہی کہیں شرعی سزائیں دی جاتیں ہیں اور نہ ہی عریانی اور فحاشی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اِس کے برعکس بدترین پانچ ممالک میں یمن، افغانستان، شام، پاکستان اور جنوبی سوڈان شامل ہیں اور بدقسمتی سے یہ پانچوں مسلم اکثریتی ممالک ہیں"